ہو گئے ہم جہاں سے بیگانے

ہو گئے ہم جہاں سے بیگانے
وحشتوں اور غموں کے دیوانے


اب ہماری کوئی طلب ہی نہیں
حال اپنا تو بس خدا جانے


نیکیاں نامہ سیاہ میں ہیں
جیسے نالی میں کچھ گہر دانے


دوستوں سے وفا کی آس کہاں
ہم تو چت ہو گئے سبھی خانے


تم نظر ہی سے کہہ گئے ہوتے
لفظ سے ماورا ہیں پروانے


آؤ پی کر کے ہاؤ ہو ہی کریں
کوئی مسجد نہیں ہیں میخانے


شیخ نے عشق کر دیا جائز
پا گئے جب دلوں کے نذرانے


اے نئی نسل تم ہی کام کرو
ہم سبھی ہو گئے ہیں افسانے


کاشفؔ اب عشق میں ہی جنت ہے
کوئی مانے یا پھر نہیں مانے