اشکوں میں آج پھر سے نہائے ہوئے ہیں ہم
اشکوں میں آج پھر سے نہائے ہوئے ہیں ہم
کوچے سے اس صنم کے بھگائے ہوئے ہیں ہم
حاکم وطن کے واسطے قربانیاں نہ پوچھ
جاں اک طرف جہان لٹائے ہوئے ہیں ہم
مجھ کو جو دیکھا اس نے کہا یوسفی سنو
انگلی تو کیا جگر ہی کٹائے ہوئے ہیں ہم
ہم خواب تیرے دیکھیں یہ ممکن نہیں کبھی
تجھ سے بچھڑ کے نیند گنوائے ہوئے ہیں ہم
ہم سب اٹوٹ انگ ہیں اک مردہ جسم کے
اہل وطن کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں ہم
اے موت رک جا آنکھ ہماری نہ بند کر
آنکھوں میں خواب وصل سجائے ہوئے ہیں ہم
کل تک سمجھ رہے تھے ہمیں ہم نفس مگر
یہ کیا ستم ہے آج پرائے ہوئے ہیں ہم
کاشفؔ زمین حسن پہ برسات کے لیے
آوارگی کو ابر بنائے ہوئے ہیں ہم