گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ

گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ
کبھی کبھی تو ورائے حد فراق تو دیکھ


مری طلب نہ سہی میرا اشتیاق تو دیکھ
عبارتوں سے پرے آ ذرا سیاق تو دیکھ


جدا ہیں جسم ہمارے جدا ہیں رنگ و روش
تو ان کو چھوڑ کے روحوں کا التساق تو دیکھ


تو اختلاف کی ساری حدیں بھلا تو سہی
تو اختلاف پہ ہم سب کا اتفاق تو دیکھ


کٹے ہے وقت بھلے مجھ کو کاٹ کر ہی کٹے
اٹوٹ غم ہے غموں کا یہ طمطراق تو دیکھ


وہ ہے مریض جو ہر دم متین رہتا ہے
کبھی مزاح تو سن اور کبھی مذاق تو دیکھ


وہ میٹھے بول حقیقت میں زہر قاتل ہیں
تو اس نقاب کے پیچھے چھپا نفاق تو دیکھ


یہ ہجر ہجر نہیں ہے کوئی قیامت ہے
یہ چشم تر نہ سہی دل کا انشقاق تو دیکھ


ہوئے ہیں حسن کے ورثا تمام بیگانے
ہے خالی ہاتھ یہ کاشف شکیلؔ عاق تو دیکھ