عشق کا مرحلہ میرے لیے دشوار نہیں
عشق کا مرحلہ میرے لیے دشوار نہیں
میرے قصے میں شہنشاہ کا کردار نہیں
سنگ برسے گا نہ لوگوں کی ملامت ہوگی
میری دنیا میں کوئی نجد کا بازار نہیں
کوئی فرہاد نہیں میں جو کروں کوہ کنی
میرے انجام میں تیشے کا بھی کردار نہیں
رومیو جیسا مروں زہر محبت کھا کر
جولیٹ سی کوئی لڑکی مجھے درکار نہیں
ہیر کے واسطے جوگی میں بنوں نا ممکن
رانجھے کی طرح بچھڑنے کو میں تیار نہیں
میں وہ یوسف نہیں جو پاکئ دامن دیکھے
دور حاضر میں زلیخا کی بھی سرکار نہیں
میں نئے دور کا عاشق ہوں مرا موقف ہے
عشق سنسار میں ہے عشق ہی سنسار نہیں
گھنٹوں باتیں میں کروں ہائے ہیلو لکھتا رہوں
گرچہ شاعر ہوں مری جان میں بیکار نہیں
آج ملنا ہے کہا پیر کو اس نے کاشفؔ
میں نے رپلائی کیا جان یہ اتوار نہیں