جان سے اپنی گزرتا کون ہے

جان سے اپنی گزرتا کون ہے
سب کہا کرتے ہیں کرتا کون ہے


ہے سبھی کو باغ جنت کی ہوس
آتش دوزخ سے ڈرتا کون ہے


دل کے ویرانے میں میرے شام سے
روز یہ سجتا سنورتا کون ہے


نیلگوں جھیلیں ہیں یا آنکھیں تری
ڈوب کر ان میں ابھرتا کون ہے


کچھ حسیں چہرے نظر آئے تو ہیں
دیکھیے دل میں اترتا کون ہے


خاک میں اک روز مل جاتے ہیں سب
خوشبوئیں بن کر بکھرتا کون ہے