جان دی جس کے لیے اس کو خبر کوئی نہیں
جان دی جس کے لیے اس کو خبر کوئی نہیں
اب کھلا مجھ پر کہ مر مٹنا ہنر کوئی نہیں
آ ہی پہنچی اک دریچے سے شعاع آفتاب
میں یہ سمجھا تھا شب غم کی سحر کوئی نہیں
آج کس کی جان سے کھیلو گے اے چارہ گرو
آج پہلو میں مرے زخم جگر کوئی نہیں
زاویہ ہائے نظر میں آہ اتنا اختلاف
گو تری تحریر میں زیر و زبر کوئی نہیں
سنگ ریزوں سے ہوا جاتا ہے دامن تار تار
جامۂ تحریر میں میرے گہر کوئی نہیں
بج اٹھی صابرؔ ہوا کے زور سے زنجیر در
میں یہ سمجھا تھا کوئی آیا مگر کوئی نہیں