دیا فریب تمنا کو ہر گھڑی میں نے

دیا فریب تمنا کو ہر گھڑی میں نے
مراد من کی نہ پائی مگر کبھی میں نے


امید و بیم سے دل کو نجات مل نہ سکی
گزار دی ہے تذبذب میں زندگی میں نے


خرد کا راگ مرے غم سے داد پا نہ سکا
جنوں کو سونپ دیا ساز آگہی میں نے


بلا کے مجھ کو سر بزم بے حجاب کیا
ترے کرم کی حقیقت بھی دیکھ لی میں نے


وصال و ہجر کے جھگڑوں سے بے نیاز ہوں میں
اسی میں دیکھی ہے لے دے کے بہتری میں نے


ترے جنوں کے تعلق میں کیا کہوں صابرؔ
تجھے قریب سے دیکھا نہیں ابھی میں نے