جا بہ جا آگ بچھائی تھی کبھی

جا بہ جا آگ بچھائی تھی کبھی
اپنے بس میں بھی خدائی تھی کبھی


میرے آئینے میں خود میرے سوا
کوئی صورت نظر آئی تھی کبھی


دشمنوں سے بھی تھا یارانہ مرا
دوستوں سے بھی لڑائی تھی کبھی


رنگ چبھتے ہیں جو اب آنکھوں میں
اپنی تصویر بنائی تھی کبھی


جب سے ہیں اپنے پرائے بیزار
رسم دنیا کی اٹھائی تھی کبھی


ہم نے بھی دشت کو مہکایا ہے
ہم نے بھی خاک اڑائی تھی کبھی


کھود کر زیر زمیں کچھ نہ ملا
اپنی شمشیر چھپائی تھی کبھی


اب دہکتی ہے دوبارا ہمدمؔ
آگ سینے میں دبائی تھی کبھی