اتنی اونچائی سے دھرتی کی خبر کیا جانے

اتنی اونچائی سے دھرتی کی خبر کیا جانے
اس کو مٹی نے ہی پالا ہے شجر کیا جانے


دفن ہوتے نہ حسیں خواب ادھورے لیکن
اپنے مرنے کی گھڑی کوئی بشر کیا جانے


جس مسافر کا پتا پوچھ رہے ہو اس کی
عمر گزری ہے مسافت میں وہ گھر کیا جانے


اس نے نفرت کے سوا اور کبھی کچھ نہ کیا
پھر وہ بد ذات محبت کا اثر کیا جانے


آج موقع ہے تو یاروں سے نبھا لو یاری
کل پھر افرنگؔ رہے کون کدھر کیا جانے