سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا!

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کیونکر ممکن ہے، یہ سوال اور اس سوال کا جواب امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کروڑوں مسلمانوں کی زندگی کا خواب ہے، اس حوالے سے بشارتیں بھی موجود ہیں اور روایتیں بھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے لیے جدوجہد ضروری ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے سے احیائے اسلام یا امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ذیل میں ہم ایسی چند تجاویز درج کررہے ہیں جن کو اپناتے ہوئے شبانہ روز کی جدوجہد ہی مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر منصب امامت پر فائز کرسکتی ہے:

  • قرآن و سنت کے درس اتحاد و اخوت کو یاد رکھا جائے:

اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو ایک طرف ایک امت قرار دیا اور دوسری طرف انہیں ہر قسم کے گروہی اختلافات سے منع فرما دیا:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)
’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘
جس خاندان جس قوم جس ملک میں تفرقہ آ جاتا ہے وہ ایک ناکام اور  نامراد قوم بن جاتی ہے اس کی دنیا  میں کو حثیت نہیں ہوتی اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اللہ تعالی نے تفرقہ میں پڑنے کی  سخت سزا رکھی ہے
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo(اٰل عمرٰن۳:۱۰۵)

 ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنھوں نے یہ روش اختیار کی، وہ سخت سزا پائیں گے
قرآن نے تفرقہ کے نتیجہ میں ہونے والے سب سے بڑے نقصان کی نشاندہی بھی فرما دی:
وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (انفال۸:۴۶)

 ’’اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔‘‘

رسول خداﷺنے فرمایا:
مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ
’’جو اس حال میں صبح کرے کہ اسے امور مسلمین کی فکر نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ۔‘‘

(الكافي/ 2 /163/باب الاهتمام بأمور المسلمين )
وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ
’’جو کسی مسلمان کی فریاد کو سنے جو مدد کے لیے پکار رہاہے اور وہ اس کی مدد نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں۔‘‘(الكافي)

حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيْن

’’مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑو۔‘‘(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الفتن)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

عَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَةِ، وَإِيَّاکُمْ وَالْفُرْقَةَ.

’’مسلمانو! تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم اجتماعیت کا ساتھ دو، مسلمانوں کی جو بڑی جماعت ہے اس کے ساتھ جڑے رہو اور تفرقہ سے ہمیشہ بچو۔ ‘‘

کیوں؟ اس لئے کہ

فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الاِثْنَيْنِ أَبْعَدُ.

’’اگر مسلمان تنہا و اکیلا رہ جائے تو شیطان کے قریب ہونا بڑا آسان ہو جاتا ہے اور اگر مسلمان جڑ جائیں، ایک ہو جائیں تو دو کے قریب شیطان کا جانا قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

گویا جتنی زیادہ تعداد میں مسلمان  ایک جماعت کی شکل میں منظم ہوجائیں گے  شیطان کا ان کے قریب جانا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔ پس اگر مسلمان بکھرے رہیں تو ایک ایک کو گمراہ کرنا شیطان کے لئے آسان ہوتا ہے اور اگر مسلمان متحد ہو کر ایک اجتماعی وحدت میں منسلک ہو جائیں تو ان سب کو گمراہ کرنا شیطان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر آقا ﷺ نے فرمایا :

مَنْ أَرَادَ بُحْبُوْحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ. (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن)

جو شخص چاہتا ہے کہ جنت کا وسط یعنی جنت کے اعلیٰ درجات تک جا پہنچے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ امت کی اجتماعیت کے ساتھ جڑ جائے۔ کیونکہ اجتماعیت کے ساتھ آپس میں جڑے رہنے سے ان کے ایمان کی بھی حفاظت ہو گی، عمل کی بھی حفاظت ہو گی، اخلاق کی بھی حفاظت ہو گی اور جملہ ظاہری، باطنی فوائد و مفادات کی بھی حفاظت ہو گی۔

معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الإِنْسَانِ کَذِئْبِ الْغَنَمِ.

’’شیطان انسانوں کے لئے بھیڑیا کی مانند ہے اسی طرح جیسے بکریوں کے ریوڑ کے لئے بھیڑیا ہوتا ہے، شیطان انسانوں کے ریوڑ کے لئے بھیڑیا ہے۔‘‘

 پھر فرمایا :

يَأْخُذُ الشَّاةَ الْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ. فَإِيَّاکُمْ وَالشِّعَابَ، وَعَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ وَالْمَسْجِدِ(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند)

’’شیطان اسی طرح اجتماعیت سے الگ ہو کر تنہا رہنے والے مسلمان کو پکڑ کر کھا جاتا ہے، گمراہ کر دیتا ہے، برباد کر دیتا ہے جس طرح بھیڑیئے کو تنہا تنہا بکریاں مل جائیں تو انہیں بھیڑیا اچک کر لے جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان بھی اگر الگ مل جائے تو شیطان اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ لہذا تم پر لازم ہے کہ بکری کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے ریوڑ سے جدا ہو کر دور کنارے پر کھڑی ہوتی ہے اور پھر اسے بھیڑیئے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔‘‘

  • علما و مفکرین امت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں:

                   امت مسلمہ کے رہنماء وحدت اسلامی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے آج امت مسلمہ میں جو کچھ رمق اتحاد کی  باقی نظر آتی ہے اس میں ان رہنماوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے جنہوں نے امت کے مسائل پر غور کیا اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچے کہ آج امت جس بھنور میں پھس چکی ہے اس سے نکلنے کا راستہ وحدت امت ہے ۔ سید جمال الدین افغانی ،سیدقطب ؒ، علامہ اقبالؒ، حسن البنا ؒ، سید مودودیؒ اور امام خمینی جیسے اکابر امت نے وحدت کے فروغ لیے انتھک جدو جہد کی ۔سید قطب تو جیل سے بھی یہی پکارتے رہے یا ایھاالمسلون اتحدوا اتحدوا اے مسلمانوں متحد ہو جاؤمتحد ہو جاؤ۔

اگر آج کے دور میں بھی امت کے علما و مفکرین انتشار و افتراق کی آگ کو ہوا دینے کی بجائے اتحاد و اتفاق کی مشعلیں جلانا اپنی زندگیوں کا مشن بنالیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ امت ایک مرتبہ پھر ایک وحدت بن کر اپنے عروج کی طرف از سر نو گامزن نہ ہوسکے۔

  • دین کا حقیقی شعور عام کرنے کی ضرورت:

مسلمانوں میں انتشار و افتراق کی ایک بڑی وجہ ناقص تصور دین ہے۔مسلمان محض فروعی اختلافات کو وجہ نزاع بنا کر آپس میں لڑ جھگڑ رہےہیں اور اپنی صلاحیتوں کا ضیاع کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر دین کے بنیادی عقائد اور اصولوں کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو مشترکات زیادہ ہیں اور اختلافات کم۔ اور اگر ہم دین کی بنیادی باتوں پر متفق ہوجائیں تو آپس اختلافات کی بہت ہی کم گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ اسلام کے مقابلے میں اگر دیگر ادیان کی موجود ہ حالت کا مطالعہ کیا جائے مثلاً عیسائیت وغیرہ کا تو ان کے پیروکاروں کا تو آپس میں بہت سے اصولی باتوں میں بھی اختلاف موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر یہ لوگ اپنے مفادات کی خاطر متحد ہوسکتے ہیں تو مسلمانوں کو تو بددرجہ اولیٰ متحد ہونا چاہیے۔ لہٰذا آج کے دور میں مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

  • باہمی تنازعات رفع کرنے کے لیے ثالثی کی ضرورت:

مسلمان ممالک کے درمیان کچھ تنازعات ایسے ہیں جن کے باعث ماضی میں بھی ان کی آپسی جنگیں ہوتی رہی ہیں اور فی الوقت بھی ان کی وجہ سے آپسی تناؤ موجود ہے۔ ان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے موثر ثالثی اداروں کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں کوئی ایسا موثر ادارہ موجود نہیں ہے جو ان کے ان تنازعات کا حل پیش کرسکے۔ او آئی سی اگرچہ موجود ہے تاہم اس کی فعالیت سوالیہ نشان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یا تو اس ادارے کو ہی موثر بنانے کی کوشش کی جائے یا پھر ایسا کوئی مزید ادارہ قائم کیا جائے جو ایک طرف تو مسلمانون کے باہمی تنازعات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور دوسری طرف جہاں کہیں بھی کسی مسلمان ملک کا تنازعہ کسی غیر مسلم ملک کے ساتھ چل رہا ہے اس کا مقدمہ بھی عالمی عدالتوں اور اقوام متحدہ وغیرہ میں موثر طریق پر لڑ سکے۔

علم کے بغیر امامت کا حصول ناممکن ہے:

اندرونی اختلافات اور خلفشار کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مضبوط کرنے اور دنیوی لحاظ سے ہر میدان میں آگے بڑھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ:

علم کے بغیر امامت کا کوئی وجود نہیں، قرآن و سنت بھی اس رائے کی تائید کرتے ہیں اور نبی اکرمﷺ کے فرامین بھی علم کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے کثرت سے موجود ہیں۔ ہماری تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک بحیثیت مجموعی ہم علم کے راستے پر گامزن تھے، دنیا میں عروج اور کامیابی ہمارے قدم چومتی تھی اور امامت کا سہرا ہمارے سر سجتا تھا، لیکن جوں ہی ہم نے علم کے راستے کو چھوڑا ، زبوں حالی ہمارا مقدر ہوچکی ہے۔

اسی طرح سائنس ، ٹیکنالوجی، ایجادات اور اختراعات  کی دنیا میں آگے بڑھے بغیر بھی کوئی عروج حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے اور اس مقابلے میں بقا اسی کے حصے میں آئے گی جو اس کے لیے کوشش کرے گا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی نئی نسلوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھائیں اور انہیں ایسی ایجادات کی طرف لگائیں جن سے ہم دنیا میں کچھ امتیاز بنا سکیں۔

اسی طرح معاشی علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔ دنیا کی معیشت یعنی گلوبل اکانومی کس طرح چلتی ہے اور اسے ہم کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتےہیں؟، اسلامی معیشت کو دنیا کے سامنے کس طرح ایک متبادل نظام کے طو ر پر پیش کیا جاسکتاہے۔؟ یہ اور ایسے دیگر سوالات کے جوابات دینابھی  ازحد ضروری ہے اور ان سوالات کو مخاطب کرتے ہوئے پیش رفت بھی ۔

خلاصہ کلام:

قرآن و سنت میں باہمی اتحاد و اتفاق کے درس کے باوجود آج ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ آج ہم ڈیڑھ ارب کلمہ گو ہیں۔ 55 سے زائد آزاد مسلم ریاستیں ہیں۔ ایک تہائی دنیا کی آبادی ہم مسلمان ہیں۔ عظیم ذخائر ارضی، بحری، فضائی ہمارے پاس ہیں۔ موسموں کے حسین تموج ہمارے افق پہ ہیں۔ رحمتوں کی رم جھم ہمیں حاصل ہے مگر اس سب کے باوجود امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا حصہ گمراہیوں کی نذر ہے،  ایک دوسرے کو گمراہ قرار دینا اور ایک دوسرے کی جڑ کاٹنا ہمارا مشن ٹھہرا۔ دشمنیوں کے الاؤ کہاں نہیں جل رہے، پگڑیاں کہاں نہیں اچھالی جارہیں۔  لا يظلمه ولا يسلمه کا سبق ہم نے فراموش کیا اور وحدتوں کو پارہ پارہ کردیا۔ اتحاد کی جو ضرورت آج ہے وہ شاید پہلے نہ تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام دنیا کے مسلمان ، خواہ وہ کسی بھی جغرافیائی خطے میں بستے ہوں ایک جان ہوجائیں اور ایک امت کی صورت میں ڈھل جائیں۔

یہ تبھی ممکن ہے جب مسلمان اولاً آپسی اختلافات کو ، خواہ وہ کتنے ہی شدید کیوں نہ ہوں، حل کرنے کے لیے قرآن اور سنت رسولﷺ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں اور اپنے سے مختلف رائے رکھنے والے شخص کو بھی ایسا ہی مسلمان اور مومن گردانیں جیسا خود کو گردانتے ہیں۔ باہمی عداوت اور دشمنی کے بتوں کو توڑتے ہوئے ایک امت اور ایک ملت  کے طور پر دنیا میں ابھریں ۔نیز سب سے بڑھ کرضروری ہے کہ مادیت اور سرمایہ داری کے نظام میں جکڑی امن و آشتی کی متلاشی  دنیا  کے سامنے اسلام کی دعوت اور اس کے عالمگیر اخوت اور امن کے پیغام کو پیش کریں۔ نیز دور جدید کے  تمام باطل نظریات کے مقابلے میں اپنے ایک متفقہ نقطہ نظر یا world viewپیش کریں ۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر