عشق کو دنیاوی بازار نہیں کر سکتے
عشق کو دنیاوی بازار نہیں کر سکتے
دل سے دل کے دل پہ وار نہیں کر سکتے
عشق میں اپنی جان لگا دی اور لٹا دی
اب ہم پھر سے ویسا پیار نہیں کر سکتے
اس کو چاہا اور چاہت پر قائم بھی ہیں
پر افسوس کے ہم اظہار نہیں کر سکتے
اس کی ہی تصویر سمائی ہے آنکھوں میں
اب ہم تم سے آنکھیں چار نہیں کر سکتے
عشق محبت پیار وفا سب بیماری ہے
اب ہم پھر خود کو بیمار نہیں کر سکتے
بحر میرؔ میں لکھی ہیں میں نے کچھ غزلیں
بن بحروں کے ہم اشعار نہیں کر سکتے
اتنا حق تو میں نے خود کو بھی نہ دیا ہے
میرے پریم کا تم انکار نہیں کر سکتے
میرے ہاتھ پہ پاؤں رکھو اور تم نکلو نا
اب ہم دونوں دلدل پار نہیں کر سکتے