عشق کر نہیں رہے

عشق کر نہیں رہے
پھر بھی مر نہیں رہے


میری بستیوں کے گھر
میرے گھر نہیں رہے


تیری بارشوں سے بھی
مٹکے بھر نہیں رہے


عادتاً خموش ہیں
تجھ سے ڈر نہیں رہے


چھٹی والے دن بھی ہم
اپنے گھر نہیں رہے