عشق کر نہیں رہے احمد عظیم 07 ستمبر 2020 شیئر کریں عشق کر نہیں رہے پھر بھی مر نہیں رہے میری بستیوں کے گھر میرے گھر نہیں رہے تیری بارشوں سے بھی مٹکے بھر نہیں رہے عادتاً خموش ہیں تجھ سے ڈر نہیں رہے چھٹی والے دن بھی ہم اپنے گھر نہیں رہے