اس دھرتی کے تارے ہم ہیں

یہ معذور بیکس غبی ذہنی بچے
ہیں انساں نہیں کوئی ماٹی کے پتلے
زباں سے ہیں گونگے سماعت سے عاری
بناؤ نہ ان کو سڑک کے بھکاری
ہیں پر پیچ تر ان کی ہستی کے رستے
کہ پر سوز جیسے ہوں بنسی کے نغمے
سراپے کو ان کے نہ بیکار کہنا
یہ ہیں زندگی کا حسیں ایک گہنا
کبھی یہ ہنسائیں کبھی روٹھ جائیں
دلوں سے غموں کی لکیریں مٹائیں
یہ نٹ کھٹ ہٹیلے بہت چلبلے ہیں
اداؤں میں ان کی عجب ولولے ہیں
کٹی انگلیاں ہیں مصور بنیں گے
اپاہج سہی پھر بھی تاجر بنیں گے
محبت کا سینوں میں جذبہ جگاؤ
سماجی فریضے کو اپنے نبھاؤ
یہ اک فرض ایسا کہ راحت ہے اس میں
چھپی ابن آدم کی عظمت ہے اس میں
انہیں غور سے تم گھڑی بھر جو دیکھو
مشیت ہے قدرت کی کچھ اس کو سمجھو
سلوک ان سے رکھو محبت وفا کا
صلہ پاؤ گے تم بھی بے شک جزا کا
انہیں بھول کر نہ کبھی دور رکھنا
عدیمؔ ان ستاروں کو معمور رکھنا