عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد ملک کے حالات کیا رخ لے سکتے؟

عمران خان  اور ان کے ساتھیوں پر  قاتلانہ حملہ ملکی سیاست میں ایک بار پھر بھونچال لے آیا ہے۔ قیاس آرائیوں، افواہوں،، دعووں، الزامات، اندازوں اور افواہوں کا پورا بازار گرم ہو چکا ہے۔ بہت سا منظر گرد میں مزید دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کون اس حملے کے پیچھے ہے؟ کیا یہ حملہ عمران خان  کے لانگ مارچ کو نئی زندگی بخشنے کے لیے ہے؟ آیا  عمران خان کو گولی لگی بھی ہے یا نہیں؟   کیا کوئی ہے جو عمران خان کو منظر سے ہٹانا چاہتا ہے؟ حملے کے بعد ملک خانہ جنگی کی طرف تو نہیں بڑھ جائے گا؟ آخر ان سب حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتا کون ہے؟

ظاہر ہے یہ سب سوالات غیر واضح ہیں۔ اور غیر واضح حالات میں ذرا سی غیر ذمہ داری  سنگین ترین نتائج پیدا کر سکتی ہے۔

حملے کے بعد اچھی چیز کیا ہوئی ہے؟

ریاست پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم پر یہ قاتلانہ حملہ ہے۔ 1951 میں لیاقت علی خان  اور 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملوں میں  جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ خوش  آئند بات یہ ہے کہ عمران خان اللہ کے فضل سے جانبر رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق گولیاں ان کی  ٹانگ میں لگی ہیں اور ہڈی بھی بچ گئی ہے۔

اس خوش آئند بات کے علاوہ بھی کچھ اور چیزیں اچھی رہی ہیں۔ حملہ آور پکڑا جا چکا ہے اور منظر عام پر اس کی ویڈیو آ چکی ہے۔ لیاقت علی خان  کے حملہ آور کی طرح موقعے پر ختم نہیں کیا گیا۔ اسے زندہ پکڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وقوعے کو دھویا نہیں گیا جہاں سے ثبوت مل سکتے ہیں۔  بہت سا منظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ بھی کیا ہے۔ اب تک عمران خان اور ساتھیوں کو گولیاں لگنے کی ویڈیو سامنے نہیں آئی جو کہ میرے لیے حیرانی کی بات ہے۔ لیکن بہرحال حملہ آور کے حملہ کرنے کی کئی ایک ویڈیوز سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔ 

اب ہم صرف ایک اہم ترین بات کی دوری پر ہیں۔ وہ ہو جائے تو  ملک میں مزید عدم استحکام کو سنبھالا جا سکتا ہے۔ وہ ہے شفاف اور غیر جانب دار تحقیقات اور نتائج عوام کے سامنے۔

حملے کے بعد ملک کے سیاسی حالات کیا رخ لے سکتے؟

اس بات کا انحصار تو سراسر تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنان پر ہوگاانہیں بہرحال اپنے ہر احتجاج میں پرامن رہنا ہوگا۔ کل رات کو نون لیگ کے قائدین مثلاً  رانا ثنا اللہ  کی رہائش گاہ پر حملے کی بھی اطلاعات آئی تھیں۔آج، یعنی جمعے کے روز تحریک انصاف کی طرف سےایک مرتبہ پھر ملک گیر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔اس نازک موقعے پر انتہائی ذمہ دار  رویے کی ضرورت ہے۔ سیاست سے کہیں بڑھ کر ملک ہے۔ اگر ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ لوگوں کے جذبات ابھارنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ملک اور عدم استحکام کی طرف جائے گا۔

ملک میں مزید کشیدگی سے کس طرح بچا جا سکتا؟

ملک کو مزید کشیدگی سے بچانے  کے لیے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ذمہ دار رویے کی سخت ضرورت ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کے قائدین کو بھی ضرورت ہے کہ وہ رانا ثنا اللہ کے بھڑکیلے بیانات رکوائیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اندازے، افواہیں اور سنی سنائی باتوں کو پھیلانے  کی بجائے  غیر  جانب دار تحقیقات کا بیانیہ بنائے۔تحقیقات ململ ہونے تک ملک کو غیر فطری ہیجان میں مبتلا کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرے خیال میں حملے کے کیس کے بہت  سے شواہد واضح ہیں۔ نہ صرف واضح ہیں، بلکہ کیمرے کی آنکھ نے  محفوظ بھی کیے ہیں۔ حملہ آور پکڑا جا چکا ہے۔ ایک ویڈیو میں جو مجھے لگتا ہے وہ اس طرح کا نہیں جو پولیس کے سخت رویے پر سچ زیادہ دیر تک چھپا سکے۔ دوسری طرف وہ فرد بھی سب کے سامنے ہے جس نے حملہ آور  کو پکڑا۔  وقوعے پر شواہد بھی مل جائیں گے۔ بہت کچھ اس کیس میں واضح ہے۔ صرف صاف شفاف تحقیقات کی نیت کی ضرورت ہے۔

لانگ مارچ کا مستقبل کیا ہوگا؟

یقیناً  خون تحاریک کی آبیاری کیا کرتا ہے۔ انہیں زندگی بخشا کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے لانگ مارچ میں بھی یہ نئی جان پھونک دے۔ کیا اس سے ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھے گا؟ میرا خیال ہے نہیں۔ اس کی  وضاحت اگلی تحریر میں تفصیل سے کروں گا۔ لیکن  جو میں اس تحریر میں یقین سے بتا سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ لانگ مارچ میں نئی جان پڑے نہ پڑے، پی ڈی ایم حکومت بقا کی جنگ جیت پائے نہ جیت پائے، حملہ آور کے پیچھے منصوبہ ساز پکڑیں جائیں نہ جائیں، تقسیم بڑھ جائے گی۔

اس وقت اگر میں ایک قسم کے میڈیا کو دیکھتا ہوں، ایک طرف کی قیادت پر یقین رکھتا ہوں، تو بات پکی ہے کہ میں دوسری طرف کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ میں لاشعوری طور پر تعصب کا شکار ہو چکا ہوں۔ کیونکہ میرے پاس  اتنے دلائل ہیں  کہ میں دوسرے پر یقین نہ کروں۔ یہ واقعہ جس طرح ہوا ہے یہ دونوں اطراف کو مزید دلائل دے دے گا اپنے موقف پر ڈٹنے کے لیے۔ ہم اپنے اپنے موقف پر مزید سخت ہونگے۔ تقسیم بڑھے گی۔

متعلقہ عنوانات