عمران خان کی انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی: انسداد دہشت گردی قانون ہے کیا؟

عمران خان آج اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہونے جا رہے ہیں۔ آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونے کا عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا۔

  یہ بات ہائی کورٹ کے دو منصفین بابر ستار اور محسن اختر کیانی نے  اس وقت کی جب پیر کے دن عمران خان کے وکیل بابر ایوان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں انہوں نے عمران خان کی قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کرنے کی استدعا کی۔ لیکن ان کی استدعا پر اعتراض  لگا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ  اس کیس کو سننے کے لیے درست جگہ نہیں ۔ کیونکہ ان کے خلاف انسداد  دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے۔ پھر بابر ایوان نے عمران خان کی عبوری ضمانت مانگی تاکہ وہ متعلقہ عدالت جو کہ انسداد دہشت گردی کی ہے ،کو پہنچ سکیں۔ عدالت نے جمعرات تک کی عبوری ضمانت دے دی تھی۔ لہٰذا عمران خان آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہو کر اپنی ضمانت لینے جا رہے ہیں۔ آج پھر فیصلہ ہوگا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت عمران خان کو مزید ضمانت دیتی ہے یا استغاثہ  عمران خان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ  لے لیتی ہے۔

عمران خان کی  ایک ہی تقریر پر دو کاروائیاں:

قارئین،  اس ایف آئی ار  کی بنیاد پر مقدمے کو اسلام آباد کی ہائی کورٹ میں  توہین عدالت  کے مقدمے سے علیحدہ سمجھیں  جس میں 31 اگست کو ان کی طلبی ہے۔ یہ دونوں چیزیں علیحدہ ہیں  لیکن ایک ہی تقریر  کے اوپر ہیں۔ ہفتہ  بیس اگست کو عمران خان نے اسلام آباد  کے ڈی آئی جی اور آئی جی سمیت وفاقی عدالت کی  ایڈیشنل سیشن خاتون جج زیباچوہدری  کو  مبینہ طور پر دھمکیاں دیں تھیں۔ آئی جی اور ڈی آئی جی کو اس لیے کہ انہوں نے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ مانگا تھا، جبکہ جسٹس زیباکو اس لیے کہ انہوں نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا تھا۔

ان دھمکیوں کی بنیاد پر ایک تو اسلام آباد کے مارگلہ پولیس اسٹیشن میں  ہفتے کی رات دس بجے مجسٹریٹ علی جاوید کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ پھر توہین عدالت کے مقدمے میں بھی ان کو اسلام ہائی کورٹ نے اکتیس اگست کو طلب کر لیا۔

انسداد دہشت گردی مقدمے میں عمران کو عالمی حمایت کیوں مل رہی ہے؟

جب عمران خان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی تو نہ صرف عالمی میڈیا نے اسے ایک بڑی خبر کے طور پر دکھایا بلکہ عالمی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے بھی عمران خان کے  لیے نپی تلی حمایت شروع کر دی۔ ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے  سیکرٹری جنرل اینتونیو گتیرز   کے اسپوکس پرسن نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ سیکرٹری جنرل عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے سے آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر جانب دار، آزاد اور اہلیت پر مبنی قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی اس بات کے ساتھ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری پر زور دیا۔

اب جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک سے نپی تلی حمایت آ رہی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سوچیں کہ آیا اس ایف آئی ار میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ یہ تو بدقسمتی سے ہماری سیاست کا معمول ہے۔ آج اس پر ایف آئی آر تو کل اس پر۔ پھر اس پر ہی کیوں عالمی شور مچا۔ 

اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسداد دہشت گردی کا قانون ایسے دہشت گردوں کے لیے ہے  جن سے عوام اور ریاستی امن کو خطرہ ہو۔  ایسے قانون کو سیاسی رہنما پر استعمال کرنا ایک خطرناک بات ہے۔ دوسری وجہ اس قانون میں موجود مختلف سقم اور اس کے پچیس سالہ اطلاق میں بے ضابطگیاں اور انسانی حقوق کی  پامالیوں کی تاریخ ہے۔  ان کو دیکھنے کے لیے مختصر ترین ہم اس قانون اور اس میں سقم کو دیکھتے ہیں۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کیا ہے؟؟

انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں  منظور گیا جب نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم تھے۔ اس قانون کو دہشت گردی اور اس وقت پھیلے فرقہ پرست فسادات سے نمٹنے کے لیے لایا گیا۔ اس میں دہشت گردی کی تعریف کی گئی کہ  کیا اقسام دہشت گردی میں شامل ہیں۔ پھر اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کس قسم کی دہشت گردی پر کیا سزا ہوگی۔  اسی کے تحت انسداد دہشت گردی کی خصوصی  عدالتیں تشکیل دی گئیں۔ اسی قانون کے تحت دہشت گردی کے الزام میں سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں بین کی جاتی ہیں۔

اس قانون میں کیا سقم ہیں؟؟ اور اس کا استعمال کیسے کیا جاتا رہا ہے؟؟

انسداد دہشت گردی قانون  میں  بعد ازاں متعدد ترامیم بھی ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ماہرین قانون نہ صرف اس قانون میں سقم کی آج بھی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اس  کے غیر منصفانہ اطلاق پر آج تک آوازیں اٹھتی ہیں۔سپریم کورٹ نے 2017 کے  فیصلے میں درج کیا تھا کہ اس قانون میں دہشت گردی کی تعریف بہت وسیع ہے۔ ایسے  جرائم جن کا دہشت گردی کی روح سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ، وہ بھی اس تعریف کی بنا پر دہشت گردی کی حدود میں آ جاتے ہیں۔  سپریم کورٹ نے مزید کہا تھا کہ اس قانون  کے تیسرے شیڈیول  میں موجود جرائم کو نکال دیں، کیونکہ  ان کا دہشت گردی سے کچھ لینا دینا نہیں۔

  ماہر قانون دان گوہر خان نے اس قانون میں سقم کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ اس میں جرم کے ساتھ نیت کو بھی درج کیا جائے۔ یعنی اگر مجرم اس نیت سے جرم کرے کہ وہ عوام میں خوف و ہراس پھیلائے یا ریاست کو نقصان پہنچائے یا پھر عوام میں افرا تفری پھیلائے۔   باقی دیگر جرائم کے  لیے تعزیرات پاکستان موجود ہے۔ گوہر خان نے مزید بھی بتایا کہ دہشت گردی کے قانون میں  سقم صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہے۔ ایک اور چیز جس کی طرف گوہر خان نے نشان دہی کی وہ یہ تھی کہ ہمارے عام قانون  میں   ملزم کے دوران تفتیش پولیس کے سامنے بیان کو عدالت میں استعمال  نہیں کیا جا سکتا تاکہ وہ خود عدالت میں اپنے بیان کی تصدیق کرے۔ لیکن دہشت گردی کے قانون اور اس کی عدالت میں ایسا  کیا جا  سکتا ہے۔

یہ سقم تو موجود ہیں لیکن آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کجیوں کو دور کیا جائے تاکہ پاکستان میں موجود سیاسی اور غیر سیاسی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے  اس قانون کو مزید استعمال نہ کریں۔ نہ ہی یہ قانون پھر سیاسی رہنماؤں پر استعمال ہو جیسے آج عمران خان کے خلاف ہو رہا ہے اور اس سے پہلے زرداری سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف ہو چکا ہے۔

متعلقہ عنوانات