الہام صوت پا کے اذانوں تک آ گیا

الہام صوت پا کے اذانوں تک آ گیا
جتنا بھی دل کا شور تھا کانوں تک آ گیا


اس پار جس قدر بھی غبار وجود تھا
پہلی نظر میں آئنہ خانوں تک آ گیا


ہر دستیاب زخم رہین ہنر کیا
پھر میں کتاب بن کے دکانوں تک آ گیا


مانا کہ میرے ہاتھ پہ دستک ادھار تھی
لیکن یہ کیا کہ خالی مکانوں تک آ گیا


کم قامتی کا دکھ مجھے لایا صلیب تک
اترا صلیب سے تو زمانوں تک آ گیا


کیا جانے جوئے خوں نکل آئے کہ جوئے شیر
تیشے میں آگ تھی سو چٹانوں تک آ گیا


نا دیدنی طواف کی تائید کس سے لیں
پیر حرم کا خوف جوانوں تک آ گیا


ہوتی ہے بازگشت بھی کس اہتمام سے
چہرہ بجھا تو نام زبانوں تک آ گیا