اک سفر ہوتا رہا اور رک گئی میں
اک سفر ہوتا رہا اور رک گئی میں
چل رہا تھا راستہ اور رک گئی میں
عشق تھا دونوں کو فطرت مختلف تھی
وہ بھٹکتا ہی رہا اور رک گئی میں
ہر دفعہ آواز سن کر میں پلٹ دی
پھر نہ جانے کیا ہوا اور رک گئی میں
یاد کے لمحے میں اک عرصہ بتایا
وقت آنکھوں سے بہا اور رک گئی میں
لمس کا کیسا اثر سانسوں پہ ہوگا
کھیل میں اس نے چھوا اور رک گئی میں
اس قدر آنکھوں سے اس کو پی لیا تھا
مجھ میں وہ بہتا رہا اور رک گئی میں
جا رہی تھی چھوڑ کر کردار اپنا
نام آیا آپ کا اور رک گئی میں