اک عشق نگر سے یہاں اک شہر حسیں کا

اک عشق نگر سے یہاں اک شہر حسیں کا
اک آسماں سے اور ہوا ایک زمیں کا


کافر ہوں زیاں کا جو میں سوچا بھی کبھی ہو
اک داغ ہی کافی ہے مجھے میری جبیں کا


اک بار خرد لے گئی تھی اس کی گلی میں
پھر ہوش گیا میرا رہا ہو کے وہیں کا


حاکم کو فقط حکم لگانے سے غرض ہے
سوچا ہی کہاں اس نے مری ہاں یا نہیں کا


ہم لوگ کسی طور سفر کاٹ ہی لیتے
چھالوں نے مگر پاؤں کے رکھا نہ کہیں کا