اچھوتا گر نہیں مضموں تو سادہ باندھ لیتے ہیں

اچھوتا گر نہیں مضموں تو سادہ باندھ لیتے ہیں
غزل اک اور لکھنے کا ارادہ باندھ لیتے ہیں


کہاں قسمت میں شعروں کی خزینے اب خیالوں کے
ہم اکثر اپنی سوچوں کا برادہ باندھ لیتے ہیں


وہی چاہت کہ میں جس میں رہا ہوں مبتلا برسوں
خیال آیا تو سوچا پھر اعادہ باندھ لیتے ہیں


گنوا دیتے ہیں ہاتھ آئی خوشی کو ہم یوں ہی اکثر
ملے گر غم ضرورت سے زیادہ باندھ لیتے ہیں


مسافر تھے مسافر ہیں مسافت رچ گئی خوں میں
سفر کا نام لے کوئی تو جادہ باندھ لیتے ہیں


اگرچہ تنگ رہتا ہے ہمیشہ قافیہ اپنا
ہمارا حوصلہ پھر بھی کشادہ باندھ لیتے ہیں