اشک مری آنکھ کے قرین کہیں تھا

اشک مری آنکھ کے قرین کہیں تھا
غم جو مرے دل میں جاگزین کہیں تھا


چھوڑ گیا تو مجھے جی کیسے بہلتا
تجھ سا زمانے میں کیا حسین کہیں تھا


راہ گزاروں سے یہ مکان کہے ہے
راہ میں دیکھا مرا مکین کہیں تھا


میں کہ نہ مرتا تھا مجھ کو مار گیا پھر
یار سا اک مار آستین کہیں تھا


ہار مقدر نیازؔ ہونی تھی وہ ہے
دین کہیں تھا ترا یقین کہیں تھا