اک دفعہ اس کو تو یوں بھی آزمانا ہے مجھے
اک دفعہ اس کو تو یوں بھی آزمانا ہے مجھے
آنسوؤں کو آنکھ کا پانی بتانا ہے مجھے
جاں بہت اترا رہا ہے اب تو آئینہ مرا
آؤ آئینے کو آئینہ دکھانا ہے مجھے
خود مجھے تو بننا ہے مصرع اولیٰ شعر میں
تم کو اس کا مصرع ثانی بنانا ہے مجھے
رخ سے زلفوں کو ہٹاتے آؤ چھت پہ رات کو
اصل چہرہ چاند کا سب کو دکھانا ہے مجھے
اس نے بولا چھوڑ دوں سگریٹ میں اب تو یعنی کہ
ہونٹھ سے اب اس کے ہونٹوں کو لگانا ہے مجھے
اب زیادہ ہو چکا ہے رونا دھونا ہجر کا
اب تو اس کے بعد کا منظر دکھانا ہے مجھے
کیوں کہوں مجھ کو محبت روح کی ہے تم سے جان
آخرش تم کو تو بانہوں میں ہی لانا ہے مجھے