ہو کبھی گر تجھ کو دریا کی روانی دیکھنا

ہو کبھی گر تجھ کو دریا کی روانی دیکھنا
تو تو ہم جیسے دیوانوں کی کہانی دیکھنا


چڑھتے دیکھی ایک چیونٹی میں نے اس دیوار پر
اس سے سیکھا خواب میں نے آسمانی دیکھنا


دیکھنے بھر سے تمہیں ہے ملتا اس دل کو سکون
چاہتا ہوں تم کو ساری زندگانی دیکھنا


شعر کے پہلے ہی مصرع میں لکھا ہے اس کا نام
پھر نہیں ہے اب تو ممکن اس کا ثانی دیکھنا


جس جوانی پہ تمہیں بھی آج ہے اتنا گمان
ایک دن ڈھل جانی ہے ساری جوانی دیکھنا


بیٹھنا آ کے کسی شب ساتھ میرے اور پھر
ان خوش آنکھوں سے تو گریہ کی روانی دیکھنا


چاہیے جتنا میں اس کو باتوں میں ہوں لا چکا
اب بدن پہ وصل کی ہے بس نشانی دیکھنا