دل کے خاطر یہ بدن ہے قید خانے کی طرح
دل کے خاطر یہ بدن ہے قید خانے کی طرح
سو لگا ہے پھڑپھڑانے یہ پرندے کی طرح
ہو پری کوئی یا کوئی پھول ہی ہو کیا ہوا
کوئی بھی پیارا نہیں ہے اس کے چہرے کی طرح
چاند ہے جو آسماں میں وہ تو ہے اس کی جبیں
اور تارے ہیں یہ سارے اس کے جھمکے کی طرح
دیکھتا ہی کیوں نہ جاؤں بیٹھ کے میں بس اسے
اس کا چہرہ ہے حسیں کوئی نظارے کی طرح
کاٹتی ہیں بعد تیرے روز ہی راتیں مجھے
یاد تیری سینہ پہ چلتی ہے آرے کی طرح
ہم ان آنکھوں سے اسے ہر روز پڑھتے آئے ہیں
وہ بدن تو یاد ہے دو کے پہاڑے کی طرح