ہو سکے تو مجھے اک شام عنایت کرنا
ہو سکے تو مجھے اک شام عنایت کرنا
برپا اس دل پہ مری جان قیامت کرنا
پھر تری یاد میں رقصاں ہے مری وحشت دل
کتنا مشکل ہے تری یاد کو رخصت کرنا
ایسا ٹوٹا ہے تغافل پہ کسی کے یہ دل
ہم سے رو رو کے کہے اب نہ محبت کرنا
پیار کے نام پہ بے مول ہی بک جاتے ہیں
ہم کو آتا نہیں جذبوں کی تجارت کرنا
ہے نوازا تجھے رازق نے تو پھر اے انساں
جتنی ممکن ہو تو دنیا میں سخاوت کرنا
جان لے کہتی ہوں للکار کے میں تجھ سے عدو
میں نے سیکھا ہے سدا سچ کی حمایت کرنا
ہم نے تھاما ہے جو انصاف کا دامن یارو
ہم سے ہرگز نہیں امید رعایت کرنا