حیات ہجر میں دل کی تھکن سمجھتا ہوں
حیات ہجر میں دل کی تھکن سمجھتا ہوں
خراب ہوں کہ جنوں کا چلن سمجھتا ہوں
سمجھتا ہوں کہ مسیحا نہیں رہا پھر بھی
مریض عشق ہوں اپنی لگن سمجھتا ہوں
سنو اے چاک گریباں کئے ہوئے لوگو
دریدہ دل ہوں میں ٹوٹے بٹن سمجھتا ہوں
سخن کروں تو بہت سوچ کر نہیں کرتا
میں خود کو جیسے روایت شکن سمجھتا ہوں
میں برگ گل کو بھی چھوتا ہوں نرم ہاتھوں سے
کھلے گلاب سا اس کا بدن سمجھتا ہوں
سنے ہیں شعر مرے مہ وشوں کے ہونٹوں سے
میں دوستوں کے دلوں کی جلن سمجھتا ہوں
عجیب وحشت گریہ ہے دم بہ دم رامزؔ
خیال یار کو دم کی گھٹن سمجھتا ہوں