حسرت دید سے مملو دل شیدائی ہے
حسرت دید سے مملو دل شیدائی ہے
شربت دید کف پا کا تمنائی ہے
کیسے طوفان تمنا کے مقابل ٹھہرے
شعلۂ عشق لب گوشۂ تنہائی ہے
شعلۂ نخوت و بے زاری حسد عجب و ریا
مانع دید رخ یار تماشائی ہے
کاکل سرو چمن مثل مہ نو دیکھا
چہرۂ یار میں ایجاد جبیں سائی ہے
ہر قدم مہر و وفا صدق و صفا ہر لمحہ
پیکر عشق کو کہتے ہو کہ ہرجائی ہے
کوچۂ عشق تمنا کا پتا دے مجھ کو
تیری فرقت میں مرے ہونٹوں پہ جاں آئی ہے
حلقۂ چشم نشیمن ہے تری یادوں کا
خرمن یاد لب گوشۂ تنہائی ہے
کیسی دوری ہے رگ جاں سے زیادہ ہے قریں
دل کے چلمن کے قریں تو نے جگہ پائی ہے
کون پائے گا سزا کون بری ہوئے گا
محفل شمع میں پروانوں کی سنوائی ہے
اے فلکؔ میں ہوں سگ خاک کف پا اس کا
مشعل راہ نجات اس کی شناسائی ہے