جس طرف دیکھو نظر آتے ہیں طعنے والے
جس طرف دیکھو نظر آتے ہیں طعنے والے
ہیں کہاں نغمۂ دلگیر سنانے والے
کس سے روٹھیں گے بھلا کون منائے گا ہمیں
زینت شہر خموشاں ہیں منانے والے
اب تو تعبیر بھی برعکس نظر آتی ہے
گم ہوئے جانے کہاں خواب سہانے والے
یہ زمانہ کا تقاضہ ہے کروں آہ و بکا
ورنہ یہ لب تھے ہمیشہ سے ترانے والے
کیسے اظہار کروں عشق خفی کا تم سے
مجھ کو مجنوں کا لقب دیں گے زمانے والے
یہ کرشمہ بھی تمہاری ہی محبت سے ہوا
مٹ گئے ہم کو زمانے سے مٹانے والے
دھڑکنیں اپنے احاطہ سے نکل آئی ہیں
ایسا لگتا ہے کہ نزدیک ہیں آنے والے
خنجر ظلم نے یوں ہی تو گلا چوما ہے
ہم ہیں نیزے پہ بھی قرآن سنانے والے
ہم تو تلوار کو خود اپنی زباں دیتے ہیں
ہم ہیں ہر حال میں وعدہ کو نبھانے والے
اس سے آگے تو فقط ساتھ فلکؔ ہے میرے
قبر تک جائیں گے کاندھوں پہ اٹھانے والے