کیوں بھلا چلمن کو سرکانے پہ وہ مائل نہیں

کیوں بھلا چلمن کو سرکانے پہ وہ مائل نہیں
کون سا دریا ہے وہ جس کا کوئی ساحل نہیں


در حقیقت ہے یہی معراج عشق و عاشقی
میرے اس کے درمیاں اب کوئی بھی حائل نہیں


اس کی شمشیر نظر نے چاک کر ڈالا جگر
بے وفا ہوتے ہوئے لگتا ہے وہ بزدل نہیں


پڑھ لیا آنکھوں کے خامے سے لکھی تحریر کو
مسلک عشاق شاہد ہے کہ میں جاہل نہیں


عشق کے چہرے پہ بدنامی کا غازہ مل دیا
کوئی چادر کوئی پردہ کوئی بھی محمل نہیں


قبل از رسوائی اس احقر سے کر لیتے سوال
ظاہراً تو سخت ہوں لیکن میں پتھر دل نہیں


بن سکے جو آپ کے مغرور ماتھے کا تلک
کیا ہمارے خون کی سرخی بھی اس قابل نہیں


میری غربت دیکھ کر پتھر بھی خوں رویا کئے
جب کہ بے جانوں کے سینوں میں کوئی بھی دل نہیں


کوئی نالہ کوئی گریہ کوئی آنسو کوئی آہ
کوئی فریاد الم انگیز لا حاصل نہیں


ہوں طنین عشق کی وادی میں مثل گمشدہ
یاد یاراں سے مبرا کوئی سی محفل نہیں


در بہ در قریہ بہ قریہ کو بہ کو دیوانہ وار
ہر جگہ ڈھونڈا اسے لیکن کوئی حاصل نہیں


خستگی سے سر جھکا کر قلب میں جب کی نظر
تب لگا اس ذات سے اک لمحہ خالی دل نہیں


مستقل میں کر رہا ہوں آتشی دریا عبور
قصد محکم ہو تو کوئی کام بھی مشکل نہیں


اے فلکؔ میں نے جلا ڈالی ہیں ساری کشتیاں
کیونکہ اس منزل سے آگے کوئی بھی منزل نہیں