حسیں ہیں کس قدر منظر میں خود کو بھول جاتا ہوں

حسیں ہیں کس قدر منظر میں خود کو بھول جاتا ہوں
تمہارے شہر میں آ کر میں خود کو بھول جاتا ہوں


نہیں رہتا ذرا بھی ہوش مجھ کو آنے جانے کا
تمہارے پاس میں آ کر میں خود کو بھول جاتا ہوں


میں کیا ہوں کون ہوں رہتی نہیں کچھ بھی خبر مجھ کو
تمہاری یاد میں اکثر میں خود کو بھول جاتا ہوں


مرا سونا بھی کیا ہے جاگنا کیا انتظار شب
پڑا رہتا ہے یہ بستر میں خود کو بھول جاتا ہوں


یہ میرا جسم میری روح اس کو سونپ دی میں نے
کوئی تو ہے مرے اندر میں خود کو بھول جاتا ہوں


عجب سی خود فراموشی ہے مجھ پر رات دن طاری
مرے اے دوست پڑھ منتر میں خود کو بھول جاتا ہوں


نہ میں دیوانہ فرزانہ نہ میں پروانہ اے ارپتؔ
تعجب ہے مجھے کیونکر میں خود کو بھول جاتا ہوں