ہر اک شے میں کمی رکھی گئی ہے

ہر اک شے میں کمی رکھی گئی ہے
آنکھ میں یوں نمی رکھی گئی ہے


سوچتا ہوں کہ اس سراپے میں
کس قدر سادگی رکھی گئی ہے


موت سے سب گریز کرتے ہیں
اس لیے زندگی رکھی گئی ہے


چاند کی چاندنی ث تنگ آ کر
اس کے لب پر ہنسی رکھی گئی ہے


میری جانب بھی اک نظر اس کی
ہاں مری بات بھی رکھی گئی ہے


میرے سارے کلام رکھے گئے
اس کی بس خامشی رکھی گئی ہے


دن تو میں کاٹ لوں مگر عرفان
ہجر میں رات بھی رکھی گئی ہے