ہر ایک گام پہ حد ہر قدم در و دیوار

ہر ایک گام پہ حد ہر قدم در و دیوار
فضائے شہر بنی بیش و کم در و دیوار


یہی تھے صحن فضا اور یہی گھر آنگن تھا
تم آئے ہو تو ہوئے محتشم در و دیوار


ہم اپنے درد ہواؤں سے بھی نہیں کہتے
اٹھائے پھرتے ہیں خود اپنے غم در و دیوار


یہ ریگ زار ہے اور اس کی اپنی دنیا ہے
یہاں ہمیشہ رہے کم سے کم در و دیوار


ہوا وطن کی پلٹ آئی بادبان کے ساتھ
وہی یہاں بھی فضا آشرم در و دیوار


نظر کے آگے نہیں پر نظر میں زندہ ہیں
سکول بستے گھروندے قلم در و دیوار


گئے جہاں بھی وہیں شہر بس گیا احسانؔ
ازل سے اپنے رہے ہم قدم در و دیوار