ہر چند رہ گزر تھی دشوار قافیے کی
ہر چند رہ گزر تھی دشوار قافیے کی
سن کر نہ رہ سکے ہم للکار قافیے کی
دن کا سکون غارت راتوں کی نیند غائب
سر پر لٹک رہی ہے تلوار قافیے کی
ہم اس کو باندھتے کیا جکڑا ہے اس نے ہم کو
اب دیکھتے ہیں صورت ناچار قافیے کی
اس آس پر کہ شاید ہو جائے تنگ ہم پر
کرتے رہے خوشامد اغیار قافیے کی
تازہ ہوا چلی اور اک لہر دل میں اٹھی
روکے نہ رک سکی پھر یلغار قافیے کی
پایا سراغ مضموں گاہے ردیف میں بھی
لازم نہ تھی سماجت ہر بار قافیے کی
دشت خیال میں پھر کیا کیا کھلے مناظر
کچھ دیر کو ہٹی تھی دیوار قافیے کی
جب شعر کا سفینہ بحر غزل میں ڈولا
اس وقت کام آئی پتوار قافیے کی
مغرب کی ہو کہانی یا مشرقی روایت
اونچی رہی ہمیشہ دستار قافیے کی
کچھ شعر کام کے بھی اس میں نکالے ہم نے
وہ کہتے تھے زمیں ہے بیکار قافیے کی
پھر اور کوئی نغمہ بھائے نہ اس کو باصرؔ
جو ایک بار سن لے جھنکار قافیے کی