حمیدہ
حبّو میاں رنگا رنگ طبیعت کے مالک تھے ۔ کالارنگ ، کسرتی بدن ، گھونگرالے بال ، اونچی ستواں ناک اور ہرپل لبوں پررقص کرتاہوا تبسم اُن کی شخصیت میں عجیب نکھار پیداکرتاتھا۔وہ ساٹھ کے لپیٹے میں تھے مگر لگتے چالیس کے تھے۔ والدین کا انتقال اُن کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا ۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی ہیروبننے کاشوق پیدا ہوا ۔ گھر کا اثاثہ بیچ بمبئی پہنچ گئے اور پھر چھ سات سال بعد فلم نگری کو ٹھکراکر کج کلا ہی شان سے وطن واپس آگئے ۔ ایساوہ خود فرماتے تھے ۔ متعلقین میں کوئی تھا نہیں ۔ اس سے زیادہ کی روداد کا ذکر انہوں نے نہ کبھی خود کیا اور نہ ہی اُن سے پوچھنے کی کسی کو ہمت ہوئی کیونکہ اُن کے منھ پھٹ ہونے سے سبھی بخوبی واقف تھے ۔ اس کے باوجود ان میں کچھ باتیں ایسی ضرورتھیں کہ جن کی بناپر علاقہ کا ہر چھوٹا بڑا ان سے دلچسپی لیتا۔ سنجیدہ افراد بھی ایساکرنے پر مجبور ہوجاتے کیونکہ حبّو میاں ہرایک کے آڑے وقت پراپنی بساط سے زیادہ کام آتے ۔
بمبئی سے واپس آنے کے بعد اپنے ہی محلہ کی گلی میں انہوں نے دوکوٹھریاں کرایہ پرلے لیں ۔ ایک میں وہ خود رہتے ، دوسری میں جنرل مرچنٹ کی دوکان کھول دی، جو خوب چلتی۔ بیماری کی حالت میں بھی دوکان بند نہیں کرتے۔ شاید آرام کے لیے انھوں نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا تھا۔ اللہ کے گھر کی طرح اُن کا در بھی صدا کے لیے کھُلا تھا۔ لیکن پہلی بار دوکان اورکوٹھری میں دیرتک تالہ لگادیکھ کرلوگ فکر مند ہوئے اورجیسے جیسے وقفہ بڑھتا گیا چہ مہ گوئیاں بڑھتی گئیں ۔ تیسرے دن ڈاکیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ بمبئی سے تار آیاتھا ، حمیدہ کا انتقال ہوگیا ہے ۔ خاص معتقدین کو بھی حمیدہ کے بارے میں کچھ علم نہ تھا کہ حبّو میاں کا اُن سے کیارشتہ ہے اوروہ اچانک اس طرح کسی کو کچھ بتائے بناکیسے چلے گئے ۔ یہ اُن کے مزاج کے خلاف تھا کیونکہ چھوٹے چھوٹے واقعہ کا ذکر وہ کئی کئی بار کرتے ۔ کہیں جانے کے پروگرام کو باقاعدگی سے ترتیب دیتے ۔ بیٹھنے والوں کو ترغیب دیتے بلکہ اُن میں سے کسی ایک کو ساتھ چلنے پراکساتے ۔ اور اگر کوئی ہم سفر بننے پررضا مند نہ ہوتا تو پھرحبّو میاں اپنا پروگرام ملتوی کردیتے ۔ لیکن اس بار ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔ کانوں کان خبر نہ ہوئی اوروہ اتنے لمبے سفر پرروانہ ہوگئے ۔ حمیدہ سب کے لئے معمہ بنی ہوئی تھی کہ ساتویں دن حبّو میاں علی الصبح واپس آئے تو ان کے ہمراہ ایک دُبلی پتلی جوان عورت اوردو لاغر سے بچے تھے ۔ جسم کی ساخت بتارہی تھی کہ عورت تیسرے بچے کو جنم دینے والی ہے ۔ حبّو میاں کوٹھری میں داخل ہوئے تو دوپہر تک باہر نہ آئے ۔ لوگ منتظر تھے کہ وہ کوٹھری سے نکلیں یادوکان کھولیں تواُن سے روداد معلوم کی جائے ۔ آخر چند لوگوں نے مجبور اً دروازے پردستک دی ۔ طویل وقفہ کے بعد حبّو میاں سرجھکائے مجرموں کی طرح باہر آئے اور یکایک پھوٹ پھوٹ کررونے لگے ۔ لوگوں نے تسلی دی ۔ چابی لے کر دوکان کھولی ۔ صبر کی تلقین کی ۔ مگرحبّو میاں گُم صُم بیٹھے ، اشک آلود نظروں سے خلاکو گھورتے رہے اورپھر کہانی کے انکشاف نے سب کے حواس باختہ کردیے ۔ انہوں نے بتایا حمیدہ میری بیوی تھی ۔ میں اُسے بہت پیار کرتاتھا مگر اُسے دولت کی چاہ تھی ۔ بمبئی میں مجھے اُسی کے ڈھابے میں پناہ ملی تھی ۔ فلموں میں جب کوئی چانس نہ مل سکا تو میں نے حمیدہ کے ڈھابے میں ملازمت اختیار کرلی جسے اس کی ماں اور ماموں چلاتے تھے ۔ ہوٹل اچھا خاصا تھا ۔ کئی تنگ رہائشی کمرے جن میں کھانے پینے کے انتظام کے علاوہ دوسری سہولیات بھی میسر تھیں ۔ ماں ماموں دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے تھے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے صفائی اور مالش کا کام کرتے تھے ۔ آئے دن گالی گفتاری ، لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا تھا ۔ ایک دن ایسے ہی ایک ہنگامے میں حمیدہ کاماموں مارا گیا جبکہ میں نے اسے بچانے کی بہت کوشش کی ۔ کئی غنڈوں کو اُس نے ایسی پٹخنیں ماریں کہ ان کی ہڈّیاں چٹخ گئیں مگر چاقوکا ایک بھر پور وار حمیدہ کے ماموں کا کام تمام کرگیا ۔ ماں بیٹی میرے کسرتی بدن اور جوانمردی سے بیحد متاثر ہوئیں ۔ رکھوالی کے لئے انہیں شدت سے میری ضرورت محسوس ہوئی۔ حمیدہ میری طرف ملتفت ہوئی جبکہ میں بہت پہلے سے اُس پر لٹوتھا۔ اچانک ایک دن حمیدہ کی ماں نے اُس سے میری شادی کرادی ۔ میں نے پلک جھپکتے من چاہی منزل حاصل کرلی ۔ شبِ وصل پتہ چلاکہ وہ جلدہی ماں بننے والی ہے۔ شرم ، شرافت اورغیرت مجھے حمیدہ کے نزدیک جانے سے روکتی رہی ۔ تین ماہ بعد اُس نے ایک بیٹی کو جنم دیا ۔ آپریشن کی جان لیوا تکلیف کے بعد زچہ بچہ کو صحیح سلامت دیکھ کر میں نے حمیدہ کی لغزشوں کوفراموش کردیا مگرو ہ اپنے آپ کو بدل نہ سکی ۔ اگلے سال وہ پھر ماں بننے والی تھی ۔ میں یہ ذلت برداشت نہ کرسکا اورہمیشہ کے لئے وطن واپس آگیا ۔ حبّو میاں نے تمتماتاہواچہرہ اوپر اٹھایا تومجمع کو محو حیرت پایا ۔ انہوں نے سوالیہ نظروں کو پڑھتے ہوئے بتایا ۔ حمیدہ بیٹے کو جنم دینے کے بعد سنبھلی اور اس نے مجھ تک بہت سے پیغامات پہنچوائے مگر میں پلٹ کر نہ جاسکا ۔ بیٹی ، ریشما! جو میرے ساتھ آئی ہے ، شوہر سے نباہ نہ کرسکی ۔ اور بیٹا اپنی گھناؤنی کرتوتوں کی بدولت جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑرہا ہے ۔