ہم یوں ہی روز کسی بات پہ اڑ سکتے ہیں
ہم یوں ہی روز کسی بات پہ اڑ سکتے ہیں
اس بہانے بھی تو اک دوجے سے لڑ سکتے ہیں
جب بھی ملتے ہیں تو اک دل میں کسک ہوتی ہے
وصل سے گزریں گے تو ہجر میں پڑ سکتے ہیں
دیکھنا یوں میں ترے دل میں اتر سکتا ہوں
مجھ کو پھندے میں ترے نین جکڑ سکتے ہیں
باتیں سن سکتے ہیں جب دو ٹکے لوگوں کی ہم
تری خاطر زمیں پر ناک رگڑ سکتے ہیں
در بدر میرے بھٹکنے کا یوں اندازہ کرو
دھوپ میں رکھے ہوئے پھول سکڑ سکتے ہیں
بچپنے میں کوئی بچہ ہے بگڑتا جتنا
ہم ترے پیار میں اتنا تو بگڑ سکتے ہیں
ایک ہونا ہی نہیں شوخؔ تو پھر مسئلہ کیا
ہم نے جب پیار کیا ہے تو بچھڑ سکتے ہیں