ہم ابھی پکے اداکار نہیں ہیں بھائی

ہم ابھی پکے اداکار نہیں ہیں بھائی
اس لیے لائق دستار نہیں ہیں بھائی


یہ جو ہر روز کا رونا ہے ہمارا رونا
ہم محبت میں سمجھ دار نہیں ہیں بھائی


اس لیے گھر میں کوئی رکھا نہ تھا دروازہ
میں سمجھتا تھا کہ دیوار نہیں ہیں بھائی


مجھ میں جاری ہے مسلسل یہ جو دریائے شکیب
جون کے روزے بھی دشوار نہیں ہیں بھائی


خون خواری بھی بھروسے سے جنم لیتی ہے
شکر کرتا ہوں کہ غم خوار نہیں ہیں بھائی


تم یہاں آنے کا اک بار ارادہ تو کرو
مسئلے اتنے بھی دشوار نہیں ہیں بھائی


بیچ میں آئے ہیں جس دن سے پرائے رشتے
بات بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں بھائی