ہے تعجب آج تک بھی عشق کیوں رسوا نہیں
ہے تعجب آج تک بھی عشق کیوں رسوا نہیں
درد بے آواز سا ہے غم کا بھی سایہ نہیں
جو ہوا انجام دیوانے کا وہ ہوتا نہیں
وہ سمجھ جاتا مگر کچھ ہم نے سمجھایا نہیں
میرے کمرے کی بھی دیواروں سے یہ پوچھے کوئی
کوئی کیا جانے کہ میں کیوں رات بھر سویا نہیں
میں کہیں جاؤں میرے ہم رہ اس کی یاد ہے
تم مجھے تنہا سمجھتے ہو تو میں تنہا نہیں
ہو سکے تو آپ رکھیے اپنے عیبوں پر نظر
دوسروں کی خامیوں پر تبصرہ اچھا نہیں
کس قدر بدلہ ہے مجھ کو وقت نے حالات نے
آئنہ ہے سامنے لیکن میرا چہرہ نہیں
دور تک ملتا نہیں ہے اس میں عاشق کا وجود
عشق ایسی دھوپ ہے جس میں کوئی سایہ نہیں
شام غم سو جاؤں تجھ کو ساتھ لے کر صبح تک
اپنے وعدے پر اسے آنا تھا وہ آیا نہیں
بے خبر بے سمت ہی اپنا رہا ہے یہ سفر
جا رہے ہیں ہم کدھر خود کو بھی بتلایا نہیں
اس قدر بیگانگی خود سے رہی ہے عمر بھر
اپنے حال زار پر ارپتؔ کبھی سوچا نہیں