ہے جھلک اس میں استعارے کی
ہے جھلک اس میں استعارے کی
شکل پہچانئے ستارے کی
نام آتا ہے بار بار مرا
بات چلتی ہے جب خسارے کی
ساتھ سورج کے ڈوب جاتا ہے
ہائے رے بے بسی نظارے کی
کتنی بیساکھیاں تھیں میرے لئے
جب ضرورت نہ تھی سہارے کی
اب ہوا میرا سر جدا تن سے
اک ذرا دیر تھی اشارے کی
کیا یہ ممکن نہیں کہ طوفاں میں
بات چلتی رہے کنارے کی
شانؔ اب راہ دیکھی جاتی ہے
رنگ کے ہر نئے شمارے کی