ہے جیسے روز دیوالی سی دنیا دنیا والوں کی

ہے جیسے روز دیوالی سی دنیا دنیا والوں کی
ہمیں بھی چار دن کی زندگی ملتی اجالوں کی


جدا غم ہے جدا خوشیاں جدا دن ہے جدا راتیں
یہ دنیا ہی نرالی ہے محبت کرنے والوں کی


زمانہ خوب صورت ہے زمانے میں حسیں لاکھوں
مگر تصویر تو تم ہو مرے خوابوں خیالوں کی


کبھی ترک محبت تم کرو سوچا نہ تھا میں نے
بھلا دی ایک دن ہی میں محبت تم نے سالوں کی


زمانے کے ورق پر اب لکھوں گا داستان غم
زباں بھی آ گئی مجھ کو کتابوں کی رسالوں کی


چھپا کر ایک آئینہ رکھا ہے میں نے بھی دل میں
کبھی تصویر لے لوں گا سبھی میں حسن والوں کی


جواب اس کا سہی دے گا کوئی تو اس کو کھولوں گا
بنا کر ایک گٹھری میں نے رکھی ہے سوالوں کی


سفر میں زندگی کے ہم نے یہ دیکھا ہے اے ارپتؔ
ضرورت پڑ ہی جاتی ہے کبھی سوکھے نوالوں کی