ہے اجنبی ناآشنا وہ گھر ترا یہ گھر مرا
ہے اجنبی ناآشنا وہ گھر ترا یہ گھر مرا
دل کی طرح پھر کیوں جلا وہ گھر ترا یہ گھر مرا
اک آدمی سے جس طرح اک آدمی کچھ دور ہے
ہے پاس ہو کر دور سا وہ گھر ترا یہ گھر مرا
اک جھونپڑی پھر اک مکاں پھر اک عمارت خاک پھر
کتنے لباسوں میں رہا وہ گھر ترا یہ گھر مرا
میں نے بہائے تھے کبھی جو داغ دھونے کو تیرے
ان آنسوؤں میں بہہ گیا وہ گھر ترا یہ گھر مرا
کچھ کھڑکیاں کچھ سینک چے پھر چار چھ دیوار بھی
ان خاص چیزوں سے بنا وہ گھر ترا یہ گھر مرا
شاہ جہاں نے تاج بنوا کر دیا پیغام یہ
اب بن چکا ہے مقبرہ وہ گھر ترا یہ گھر مرا
آزاد ہو کر آنکھ سے ٹپکا زمیں پہ جب لہو
اس نے اشارے سے کہا وہ گھر ترا یہ گھر مرا