گزرا جدھر سے راہ کو رنگین کر گیا
گزرا جدھر سے راہ کو رنگین کر گیا
جگنو اک آفتاب کی توہین کر گیا
کس نے بٹھایا مجھ کو سر مسند سناں
یہ کون میرے جسم کی تزئین کر گیا
اشکوں نے زخم زخم کو اندر سے دھو دیا
یہ غم ترا تو روح کی تسکین کر گیا
یہ کس کی خامشی سے ہے نبض جہاں رکی
یہ کون کائنات کو غمگین کر گیا
آیا تھا لے کے زیست میں دولت سکون کی
جاتے ہوئے قرار مرا چھین کر گیا
یہ گام گام آئنے کس نے بچھا دئے
یہ کون گام گام کو خودبین کر گیا
تہمت مرے وجود کو چھو کر پلٹ گئی
سمجھا تھا وہ کہ ذات کی تسکین کر گیا
اے کشتگان عشق بھرم ہے یہ عشق کا
رکھنا یہ جیب چاک وہ تلقین کر گیا
طاہرؔ ہر ایک بات میں جس کی مٹھاس تھی
بچھڑا تو زندگی کو وہ غمگین کر گیا