گفتگو نظم نہیں ہوتی ہے
گفتگو کے ہاتھ نہیں ہوتے
مگر ٹٹولتی رہتی ہے در و دیوار
پھاڑ دیتی ہے چھت
شق کر دیتی ہے سورج کا سینہ
انڈیل دیتی ہے حدت انگیز لاوا
خاکستر ہو جاتا ہے ہوا کا جسم
گفتگو پہلو بدلتی ہے
اور زمین آسمان کی جگہ لے لیتی ہے
راج ہنس داستانوں میں سر چھپا لیتے ہیں
اونٹنیاں دودھ دینا بند کر دیتی ہیں
اور تھوتھنیاں آسمان کی طرف اٹھائے صحرا کو بد دعائیں دینے لگتی ہیں
ہیجانی نیند پلکیں اکھیڑنے لگتی ہے
اور کچی نظمیں سر اٹھانے لگتی ہیں
گفتگو کے پاؤں نہیں ہوتے
لڑھکتی پھرتی ہے
ماری جاتی ہے سانسوں کی بھگدڑ میں
کفنا دی جاتی ہے
لوگوں کے لباس کھینچ کر
کافور کی تیز بو
لپٹ جاتی ہیں سینے کے پنجر سے
اور نظم ادھوری رہ جاتی ہے