گفتگو ایک پل رکی بھی نہیں
گفتگو ایک پل رکی بھی نہیں
بات کرنی تھی جو ہوئی بھی نہیں
ایسے دیکھو تو سب ادھورا ہے
ویسے دیکھو تو کچھ کمی بھی نہیں
ہم بجھائیں گے ہم بجھائیں گے
آگ جو ٹھیک سے لگی بھی نہیں
مجھ سے اک شکوہ ہے زمانے کو
چال پوچھی بھی اور چلی بھی نہیں
ربط ٹوٹا تو ٹوٹ جانے دیا
جسم کے ساتھ روح تھی بھی نہیں
ہم اور آپ اک غزل کا چربہ ہیں
وہ غزل جو ابھی ہوئی بھی نہیں