نہ زمین تھی ہماری نہ ہی آسماں ہمارا

نہ زمین تھی ہماری نہ ہی آسماں ہمارا
ملے آپ جب ہوا ہے یہ جہاں جہاں ہمارا


بڑے حق سے میرے دل پہ وہ ہتھیلی رکھ کے بولے
کہ جہاں جہاں سے دھڑکا یہ وہاں وہاں ہمارا


اسے شک تھا ہر پل اس کو یہ جہاں پرکھ رہا ہے
اسی کشمکش میں لیتا رہا امتحاں ہمارا


جو زباں کھلے تو رشتوں کی لگام چھوٹتی ہے
جسے کہہ دیا ہو اپنا وہ رہا کہاں ہمارا


سبھی ساتھ چلنے والوں کی الگ الگ تھی منزل
وہاں رکتے ہیں جہاں سے چلا کارواں ہمارا