گو دہر کے نقشے میں ہیں باہر بھی نہیں ہم
گو دہر کے نقشے میں ہیں باہر بھی نہیں ہم
رکھتے ہیں نشاں اور اجاگر بھی نہیں ہم
کیوں ہم سے پھر امید صدف باندھ رہے ہو
جب تم کو پتا ہے کہ سمندر بھی نہیں ہم
خوشبو کی طرح پھول کے پنجرے میں نہیں بند
آزاد فضاؤں کا مقدر بھی نہیں ہم
احساس ہے پھر خانہ بدوشی کا ہمیں کیوں
رہنے کو ٹھکانہ بھی ہے بے گھر بھی نہیں ہم
کیسے ہو خد و خال سے پہچان ہماری
معنی کی طرح لفظ کے اندر بھی نہیں ہم
پرواز سبب کیسے ہو بچوں کی خوشی کا
تتلی کی طرح مصحف گل پر بھی نہیں ہم
اس کا یہ تقاضا ہے کہ احکام بجا لائیں
جس حسن کا سرکار کے نوکر بھی نہیں ہم