گھٹائیں رقص کرتی ہیں یہ موسم رقص کرتے ہیں
گھٹائیں رقص کرتی ہیں یہ موسم رقص کرتے ہیں
وہ زلفوں کو جب اپنی کر کے پر نم رقص کرتے ہیں
بڑی مستی بڑی گہرائی ہے ان شوخ آنکھوں میں
انہیں میں مست ہو کر دونوں عالم رقص کرتے ہیں
ہوائیں آنے لگتی ہیں کبھی جب ان کے دامن کی
دئے بھی کر کے اپنی لو کو مدھم رقص کرتے ہیں
تمہارے ہجر کی راتوں میں جب تنہائی ڈستی ہے
بجا کر اپنی ہم سانسوں کی سرگم رقص کرتے ہیں
بہاروں جھومنے لگتی ہیں ان کا نام سنتے ہی
سجا لیتے ہیں گل ہونٹوں پہ شبنم رقص کرتے ہیں
میاں ہم تو قلندر ہیں ہمارا حال مت پوچھو
ہمارے سینے میں کتنے ہی سنگم رقص کرتے ہیں
کبھی جب مل کے آتے ہیں کہیں تنہائی میں ان سے
دریچے بند کر لیتے ہیں اور ہم رقص کرتے ہیں
ہزاروں بجلیاں صدقے میں ان کے ٹوٹ جاتی ہیں
پہن کے نور کی پائل جو ہمدم رقص کرتے ہیں
ندیمؔ اپنی ادا ایسی ہے جس کے سامنے آ کر
خوشی مدہوش ہو جاتی ہے اور غم رقص کرتے ہیں