گلیوں میں لہو ریزی کا کچھ حل نکل آئے
گلیوں میں لہو ریزی کا کچھ حل نکل آئے
لوگ اس لیے خود جانب مقتل نکل آئے
میں کاسہ بدستوں کے قبیلے کا ہوں لیکن
خوش قسمتی سے ہاتھ مرے شل نکل آئے
رونے سے مجھے خلق خدا روک رہی تھی
پھر میری طرف داری میں بادل نکل آئے
اک سطح محبت پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
ایسا نہ ہو یہ جھیل بھی دلدل نکل آئے
افسوس کہ اب بھی ہیں ترے دام میں کچھ کچھ
ہم سمجھے تھے اس بار مکمل نکل آئے
آباد رہے شہر خموشاں کسے معلوم
مجھ ایسا مسافر یہاں کس پل نکل آئے