فرصت نہیں ہے مجھ کو محبت کے کھیل سے

فرصت نہیں ہے مجھ کو محبت کے کھیل سے
میں کیوں لڑائی لوں کسی پاگل چڑیل سے


یہ ظلم بھی ہوا ہے محبت کے نام پر
بانوئے شہر کھینچی گئی ہے نکیل سے


اس سے بچھڑ کے خود کو سنبھالا نہیں گیا
لگتا ہے گر پڑی ہوں کسی چلتی ریل سے


اب میں کہاں وصال کا پودا لگاؤں گی
یہ گھر تو بھر گیا ہے اداسی کی بیل سے


بچپن میں چاند بھی کوئی پنچھی لگا مجھے
لگتا تھا گر پڑے گا یہ میری غلیل سے