فرصت ہو تو سن لیجے بیتا ہوا افسانہ (ردیف .. ا)

فرصت ہو تو سن لیجے بیتا ہوا افسانہ
کیوں ہوش گنوا بیٹھا یہ آپ کا دیوانہ


تم ہی تو تمنا ہو ہر شیخ و برہمن کی
سجدہ تمہیں کرتے ہیں کعبہ ہو کہ بت خانہ


طوفان محبت کا خاموش تھا مدت سے
کیوں آج چھلک اٹھا یہ صبر کا پیمانہ


ہم آتش الفت میں اس طور سے جلتے ہیں
خود شمع ہیں محفل میں اور آپ ہی پروانہ


جب مست نگاہوں سے ساقی نے ذرا دیکھا
مدہوش نظر آیا میخانے کا مے خانہ


اس دل کی خرابی سے عاجز ہیں مگر پھر بھی
رکھتے ہیں عزیز اپنا ٹوٹا ہوا پیمانہ


ہو عہد وفا ان کا یا وعدۂ فردا ہو
آتا ہے شمیمؔ ہم کو باتوں میں بہل جانا