فسانۂ غم دل آپ کو سنا دیتے

فسانۂ غم دل آپ کو سنا دیتے
غرور حسن کو ہم اور کچھ بڑھا دیتے


نگاہ شوق پہ الزام حشر آ جاتا
جو آپ حشر سے پہلے نقاب اٹھا دیتے


نگاہ ناز سے اک بار دیکھ لیتے ادھر
تمہاری نظروں کو ہم عمر بھر دعا دیتے


خطا معاف نہ ہوتی یہ گرمی محفل
ہم اپنا دل نہ اگر شمع ساں جلا دیتے


متاع زیست اسی درد کو سمجھتے ہیں
وگرنہ یاد تری دل سے ہم بھلا دیتے


یہ گلشن اپنی ہی رنگینیوں پہ نازاں ہے
نہ جانے اہل نظر ہیں کسے دعا دیتے


خیال زلف رہا مقصد حیات شمیمؔ
بہار شام چمن پر دھیان کیا دیتے