فتنۂ شمس و قمر سے نکلے

فتنۂ شمس و قمر سے نکلے
حلقۂ شام و سحر سے نکلے


کیا کہیں کتنے شرر کتنے گل
میرے دامان ہنر سے نکلے


ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہ رہی
ہم دعاؤں کے اثر سے نکلے


کتنے طوفان رہے دل میں نہاں
کتنے انداز نظر سے نکلے


وہ بھی آنگن میں کھڑا کانپتا تھا
ہم بھی سہمے ہوئے گھر سے نکلے


سامنے برف کی دیوار تھی شانؔ
ہم جب اس راہ گزر سے نکلے